Poems

گھاس تو مجھ جیسی ہے

گھاس بھی مجھ جیسی ہے
پاؤں تلے بچھ کر ہی زندگی کی مراد پاتی ہے
مگر یہ بھیگ کر کس بات گواہی بنتی ہے
شرمساری کی آنچ کی
کہ جذبے کی حدت کی
گھاس بھی مجھ جیسی ہے
ذرا سر اٹھانے کے قابل ہو
تو کاٹنے والی مشین
اسے مخمل بنانے کا سودا لیے
ہموار کرتی رہتی ہے
عورت کو بھی ہموار کرنے کے لیے
تم کیسے کیسے جتن کرتے ہو
نہ زمیں کی نمو کی خواہش مرتی ہے
نہ عورت کی
میری مانو تو وہی پگڈنڈی بنانے کا خیال درست تھا
جو حوصلوں کی شکستوں کی آنچ نہ سہہ سکیں
وہ پیوند زمیں ہو کر
یوں ہی زور آوروں کے لیے راستہ بناتے ہیں
مگر وہ پر کاہ ہیں
گھاس نہیں